سورہ یٰسین تفسیر اردو میں

سورہ یٰسین اپنے طاقتور پیغامات، برکتوں اور روحانی فوائد کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس میں آخرت پر ایمان کی اہمیت، نبوت کی سچائی اور اللہ کی رحمت پر زور دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اسے روحانی طاقت، سکون اور مشکلات میں آسانی کے لیے روزانہ پڑھتے ہیں۔
اردو میں سورہ یٰسین تفسیر قارئین کو قرآن کے اس اہم باب کے حقیقی معنی اور پیغام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ تفسیر کا لفظ عربی لفظ “فسارہ” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے وضاحت یا تشریح کرنا۔ یہ ہر آیت کی واضح وضاحت فراہم کرتا ہے، جس سے آپ کو سورہ یاسین کے مقصد، سیاق و سباق اور روحانی رہنمائی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ غیر عربی بولنے والوں کے لیے، اردو میں تفسیر پڑھنا سورہ کو سمجھنے میں آسان اور زیادہ معنی خیز بناتا ہے۔ ہماری ویب سائٹ پر آپ سورہ یٰسین تفسیر آڈیو بھی سن سکتے ہیں یا آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔ ہم ایک معزز اسلامی اسکالر مولانا مودودی کی سورہ یٰسین کی تفسیر پیش کرتے ہیں جس کی کتاب تفہیم القرآن گہری اور فکر انگیز وضاحت پیش کرتی ہے۔ تفسیر کا مطالعہ اسلام کے بارے میں آپ کے علم کو بڑھانے اور قرآن کی تعلیمات کے ساتھ مزید گہرائی سے جڑنے کا ایک بہترین طریقہ ہے اور روزمرہ کی زندگی میں قرآن کی رہنمائی کو لاگو کرنے میں مدد کرتا ہے۔


سورہ یٰسین تفسیر آن لائن سنیں

سورہ یٰسین تفسیر آن لائن پڑھیں

36.0

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
اسلام کی طرف سے سکھائے گئے بہت سے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے پیروکار اپنی سرگرمیاں خدا کے نام سے شروع کریں۔ اس اصول پر اگر جان بوجھ کر عمل کیا جائے تو ضروری طور پر تین مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ سب سے پہلے، اور یہ سب سے اہم فائدہ ہے - جب آدمی خدا کے نام کے ساتھ کچھ شروع کرتا ہے، تو وہ خدا کی حمایت اور مدد سے لطف اندوز ہوتا ہے؛ خدا اس کی کوششوں میں برکت دے گا اور اسے شیطان کی چالوں اور فتنہ سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ جب بھی انسان خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ دوسرا، اگر کوئی آدمی اچھے اور جائز کاموں کو شروع کرنے سے پہلے خدا کا نام لے تو یہ عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اس کا نقطہ آغاز اور اس کا ذہنی رجحان دونوں درست ہیں۔ تیسرا، انسان بہت سی برائیوں سے اپنے آپ کو روک سکے گا، کیونکہ خدا کے نام کے تلفظ کی عادت اس وقت سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ جب کوئی جرم کرنے والا ہو تو ایسے فعل کا خدا کے پاک نام کے کہنے کے ساتھ کیا موافقت ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔ اور حدیث میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

36.1

يسٓ

یٰسٓ ۔ا

Tafseer

Tafseer
سورة یٰسٓ نام : آغاز ہی کے دو حرفوں کو اس سورے کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول یا تو مکہ کے دور متوسط کا آخری زمانہ ہے ، یا پھر یہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے- {یٰسٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، زیادہ تر مفسرین کی رائے میں ’’ یٰـسٓ ‘‘ حضورﷺ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی طرح ’’طٰہٰ‘‘ کے بارے میں بھی یہی کہا جا تا ہے کہ یہ حضورﷺ کا نام ہے۔ واللہ اعلم! ابن عباس ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ یٰسٓ معنی ہیں ’’ اے انسان ‘‘ یا ’’ اے شخص ۔‘‘ اور بعض مفسرین نے اسے ’’ یا سید ‘‘ کا مخفف بھی قرار دیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی ﷺ ہیں ۔

36.2

وَٱلۡقُرۡءَانِ ٱلۡحَكِيمِ

قسم ہے قرآن حکیم کی ۔ا

Tafseer

Tafseer
علماء بيان کرتے ہیں کہ جب اللہ کسی چیز کی قسم کھاتا ہے تو وہ اس کی اہمیت اور تقدس کو اجاگر کرتا ہے۔ القرآن سے مراد اللہ کی کتاب ہے جس میں واضح اور کامل رہنمائی موجود ہے۔ الحکیم کا مطلب ہے عقلمند یا حکمت سے بھرا، یہ بتاتا ہے کہ قرآن کی تعلیمات گہری حکمت پر مبنی ہیں جو صحیح راستے کی طرف لے جاتی ہیں۔

36.3

إِنَّكَ لَمِنَ ٱلۡمُرۡسَلِينَ

کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو ،ا

Tafseer

Tafseer
اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی ﷺ کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضور ﷺ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ’’ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ‘‘ یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں ۔ پھر اس بات پر قرآن کی قسم کھائی گئی ہے ، اور قرآن کی صفت میں لفظ ’’ حکیم ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے ۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے ۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادر نہیں ہے ۔ اور محمد ﷺ کو جو لوگ جانتے ہیں وہ ہرگز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں ، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں ۔

36.4

عَلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٖ

سیدھے راستے پر ہو ،ا

Tafseer

Tafseer
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صراطِ مستقیم پر ہیں جیساکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا اور آپ لوگوں کو صراطِ مستقیم کی دعوت بھی دیتے ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے اور بیشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔

36.5

تَنزِيلَ ٱلۡعَزِيزِ ٱلرَّحِيمِ

( اور یہ قرآن ) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہاں قرآن کے نازل کرنے والے کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ غالب اور زبردست ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے ۔ پہلی صفت بیان کرنے سے مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ قرآن کسی بے زور ناصح کی نصیحت نہیں ہے جسے تم نظر انداز کر دو تو تمہارا کچھ نہ بگڑے ، بلکہ یہ اس مالک کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے ، جس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، اور جس کی پکڑ سے بچ جانے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اور دوسری صفت بیان کرنے سے مقصود یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا رسول بھیجا اور یہ کتاب عظیم نازل کی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ کر اس راہ راست پر چل سکو جس سے تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل ہوں ۔

36.6

لِتُنذِرَ قَوۡمٗا مَّآ أُنذِرَ ءَابَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غَٰفِلُونَ

تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گیے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سرزمین میں متعدد انبیاء آ چکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو ، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا ، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں ۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں ، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے ، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرما دیا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں ۔

36.7

لَقَدۡ حَقَّ ٱلۡقَوۡلُ عَلَىٰٓ أَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ

ان میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ، اس لیے وہ ایمان نہیں لاتے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو نبی ﷺ کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کر لیا تھا کہ آپ کی بات بہرحال مان کر نہیں دینی ہے ۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمام حجت ہو جانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان پر خود ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی ۔ اسی مضمون کو آگے چل کر اس فقرے میں کھول دیا گیا ہے کہ ’’ تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے ۔‘‘

36.8

إِنَّا جَعَلۡنَا فِيٓ أَعۡنَٰقِهِمۡ أَغۡلَٰلٗا فَهِيَ إِلَى ٱلۡأَذۡقَانِ فَهُم مُّقۡمَحُونَ

ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں ، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس آیت میں ’’ طوق ‘‘ سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبول حق میں مانع ہو رہی تھی ۔’’ ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے ‘‘ اور ’’ سر اٹھائے کھڑے ہونے ‘‘ سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے ، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن سے روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آ جائے ، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے ۔

36.9

وَجَعَلۡنَا مِنۢ بَيۡنِ أَيۡدِيهِمۡ سَدّٗا وَمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدّٗا فَأَغۡشَيۡنَٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُونَ

ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے ۔ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے ، انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا ۔ا

Tafseer

Tafseer
ایک دیوار آگے اور ایک پیچھے کھڑی کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اسی ہٹ دھرمی اور استکبار کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں ، اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں ۔ ان کے تعصبات نے ان کو ہر طرف سے اس طرح ڈھانک لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھلے کھلے حقائق نظر نہیں آتے جو ہر سلیم الطبع اور بے تعصب انسان کو نظر آ رہے ہیں ۔

36.10

وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَأَنذَرۡتَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تُنذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ

ان کے لیے یکساں ہے ، تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو ، یہ نہ مانیں گے ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بے کار ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے ۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو ۔ مگر ان کی اس روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو ، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آ جانے والے ہیں ۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسی دوسری قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ چھانٹ کر نکال لینا ہے ۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ ۔

36.11

إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ ٱتَّبَعَ ٱلذِّكۡرَ وَخَشِيَ ٱلرَّحۡمَٰنَ بِٱلۡغَيۡبِۖ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٖ وَأَجۡرٖ كَرِيمٍ

تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے ۔ اسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو ۔ا

Tafseer

Tafseer
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے، جنہوں نے سختی سے اپنے آپ کو برائی کے حوالے کر دیا ہے، ان کے لیے اللہ کے پیغام کی تبلیغ کی کوئی رغبت نہیں ہے، کیونکہ ان کی اپنی مرضی انہیں روک دیتی ہے۔ لیکن کچھ اور ہیں جو اللہ کا پیغام سننے اور اللہ کا فضل حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اس کے مقدس قانون کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے ہیں، اور ان کا خوف محض سطحی نہیں ہے بلکہ گہرا ہے؛ کیونکہ جب وہ ابھی تک اللہ کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی دوسرے لوگ انہیں دیکھتے ہیں، انہیں اللہ کی موجودگی کا وہی احساس ہوتا ہے جیسے اُنہوں نے اُس کو دیکھا، اور اُن کا مذہب محض ایک پوز نہیں ہے، جسے لوگ دیکھ سکیں۔ یہاں غیب کی صفت ہے: اللہ کے لیے ان کی تعظیم اس حقیقت سے متاثر نہیں ہوتی کہ وہ اسے نہیں دیکھتے، یا یہ کہ دوسرے لوگ ان کا مشاہدہ نہیں کرتے، کیونکہ ان کا یہ رویہ اللہ سے سچی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے خوشخبری ہے: کیونکہ یہ انھیں ان کے ماضی میں ہونے والی کسی بھی غلطی کے لیے معافی کا راستہ دکھاتا ہے، اور یہ انھیں مستقبل میں مکمل اجر کا وعدہ دیتا ہے، جو کسی بھی صحرا سے زیادہ سخی ہے۔

36.12

إِنَّا نَحۡنُ نُحۡيِ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُواْ وَءَاثَٰرَهُمۡۚ وَكُلَّ شَيۡءٍ أَحۡصَيۡنَٰهُ فِيٓ إِمَامٖ مُّبِينٖ

ہم یقینا ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ۔ جو کچھ افعال انہوں نے کئے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں ، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں ۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامۂ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے ۔ دوسرے ، اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش ( Impressions ) بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں ، اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح ابھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سنی جائے گی ، اس کے اپنے خیالات اور نیتوں اور ارادوں کی پوری داستان اس کی لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی ، اور اس کے ایک ایک اچھے اور برے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنات کی تصویریں سامنے آ جائیں گی ۔ تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر ، اپنے معاشرے پر ، اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کارفرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے ۔ اپنی اولاد کو جو بھی اچھی یا بری تربیت اس نے دی ہے ، اپنے معاشرے میں جو بھلائیاں یا برائیاں بھی اس نے پھیلائی ہیں اور انسانیت کے حق میں جو پھول یا کانٹے بھی وہ بو گیا ہے ان سب کا پورا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہے گا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اپنے اچھے یا برے پھل لاتی رہے گی ۔

36.13

وَٱضۡرِبۡ لَهُم مَّثَلًا أَصۡحَٰبَ ٱلۡقَرۡيَةِ إِذۡ جَآءَهَا ٱلۡمُرۡسَلُونَ

انہیں مثال کے طور پر اس بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہ اس میں رسول آئے تھے ۔ا

Tafseer

Tafseer
قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا ۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا ۔ لیکن یہ سارا قصہ ابن عباس ، قتادہ ، عِکرِمہ ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے ۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان ( Saleucid dynasty ) کے 13 بادشاہ انتیوکس ( Antiochus ) کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت ، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام و فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا ۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو ۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو ، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو ، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے ۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی ۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذاب الہٰی کی شکار ہوئی ۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکار رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو ۔ ان وجوہ سے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے ۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے ، نہ کسی صحیح حدیث میں ، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے ۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی ، تعصب اور انکار حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اس بستی کے لوگ چلے تھے ، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے ۔

36.14

إِذۡ أَرۡسَلۡنَآ إِلَيۡهِمُ ٱثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٖ فَقَالُوٓاْ إِنَّآ إِلَيۡكُم مُّرۡسَلُونَ

ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے اور انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا ۔ پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا اور ان سب نے کہا ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
جب ہم نے بھیجے ان کی طرف دو رسول‘‘اس بارے میں مفسرین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ دو حضرات ’’رسول من جانب اللہ ‘‘نہیں تھے بلکہ کسی ’’رسول کے رسول ‘‘تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے وقت کے رسول کسی دوسرے مقام پر موجود ہوں اور انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی خاص بستی کی طرف دعوت کے لیے بھیجا ہو۔ اس بارے میں غالب رائے یہ ہے کہ وہ حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تھے جو آپؑ کے حکم سے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر انطاکیہ میں تبلیغ کے لیے آئے تھے۔’’رسول کے رسول‘‘ کی اصطلاح ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے ۔ مثلاً حضور اکرمﷺ نے ُحدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تو مدینہ واپسی پر آپؐ نے خواتین سے بھی بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور اس کے لیے آپؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خواتین کے پاس بھیجا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواتین کے مجمع میں آ کر فرمایا: اَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ (میں اللہ کے رسولﷺ کا رسول ہوں)۔اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایرانیوں کے سامنے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا ’’اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا…‘‘ یعنی ہمیں اللہ کے رسولﷺ نے اپنا نمائندہ بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ بہر حال یہاں یہ دونوں امکان موجود ہیں ۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بستی میں اللہ نے ایک ساتھ دو رسول مبعوث فرمائے ہوں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو اکٹھے مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دو اصحاب کسی رسول کے نمائندے بن کر متعلقہ بستی میں گئے ہوں۔ انہوں نے ان دونوں کو جھٹلادیا ‘تو ہم نے (ان کو) تقویت دی ایک تیسرے کے ساتھ اُس قوم کی طرف سے ان دونوں رسولوں کی تکذیب کے بعد ہم نے ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھی بھیجا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ بہر حال ! عبرت کا جو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے وہ نہ بستی کے تعین پر موقوف ہے اور نہ پیغام لے جانے والوں کی شناخت پر، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام نہیں بتائے، لہذا ہمیں بھی اس کی کھوج میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

36.15

قَالُواْ مَآ أَنتُمۡ إِلَّا بَشَرٞ مِّثۡلُنَا وَمَآ أَنزَلَ ٱلرَّحۡمَٰنُ مِن شَيۡءٍ إِنۡ أَنتُمۡ إِلَّا تَكۡذِبُونَ

بستی والوں نے کہا تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے چند انسان ، اور خدائے رحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تم محض جھوٹ بولتے ہو ۔ا

Tafseer

Tafseer
دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے ۔ یہی خیال کفار مکہ کا بھی تھا ۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد ( ﷺ ) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں : وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص ( یعنی محمد ﷺ ) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟ قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو ، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا ۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح ؑ کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا : ۔ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا ، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے ۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا ۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی ( کہ انسان رسول بن کر آئے ) ۔ قوم عاد نے یہی بات حضرت ہود ؑ کے متعلق کہی تھی : ۔ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا ۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو ۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے ۔ قوم ثمود نے حضرت صالح ؑ کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ : کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کر لیں ؟ اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء ؑ کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا ،’’ تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے بشر ۔‘‘ اور انبیاء نے ان کو جواب دیا کہ ’’ واقعی ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں ، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ‘‘ اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے : کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے دردناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا ’’ کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟‘‘ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے۔ لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا ’’ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ؟‘‘ پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی فرشتہ ، یا بشریت سے بالاتر کوئی ہستی : ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو ۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے ۔ ۔ ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اے نبی ، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :12 یہ ایک اور جہالت ہے جس میں کفار مکہ بھی مبتلا تھے ، آج کے نام نہاد عقلیت پسند لوگ بھی مبتلا ہیں ، اور قدیم ترین زمانے سے ہر زمانے کے منکرین وحی و رسالت اس میں مبتلا رہے ہیں ۔ ان سب لوگوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے انسانی ہدایت کے لیے کوئی وحی نازل نہیں کرتا ۔ اس کو صرف عالم بالا کے معاملات سے دلچسپی ہے ۔ انسانوں کا معاملہ اس نے خود انسانوں ہی پر چھوڑ رکھا ہے ۔

36.16

قَالُواْ رَبُّنَا يَعۡلَمُ إِنَّآ إِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُونَ

رسولوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم ضرور تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ،ا

Tafseer

Tafseer
”ہمارا رب جانتا ہے “ یہ الفاظ قسم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بلاغت کا اصول ہے کہ سننے والا جتنی شدت کے ساتھ کسی بات کا منکر ہو اتنی ہی تاکید کے ساتھ بات کی جائے۔ پیغمبروں کا حوصلہ دیکھیے، بستی والوں کے انھیں صاف جھوٹا کہنے پر بھی وہ برا فروختہ نہیں ہوئے، بلکہ قسم کھا کر انھیں اپنی رسالت کا یقین دلانے کی کوشش کی۔

36.17

وَمَا عَلَيۡنَآ إِلَّا ٱلۡبَلَٰغُ ٱلۡمُبِينُ

اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی ہمارا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جو پیغام تم تک پہنچانے کے لیے رب العالمین نے ہمارے سپرد کیا ہے وہ تمہیں پہنچا دیں ۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ مانو یا نہ مانو ۔ یہ ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے کہ تمہیں زبردستی منوا کر ہی چھوڑیں ۔ اور اگر تم نہ مانو گے تو تمہارے کفر میں ہم نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ اپنے اس جرم کی جواب دہی تم کو خود ہی کرنی پڑے گی ۔

36.18

قَالُوٓاْ إِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۖ لَئِن لَّمۡ تَنتَهُواْ لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٞ

بستی والے کہنے لگے ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں ۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو ، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کی ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں ، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے ۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی ﷺ کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ، ’’ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ‘‘ ( النساء : 77 ) ۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں ۔ قوم ثمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ ، ’’ ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے ۔‘‘ ( النمل : 47 ) اور یہی رویہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَا جَآءَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوْا بِمُوسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ۔ ’’ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے ، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ‘‘ ( الاعراف : 130 )

36.19

قَالُواْ طَـٰٓئِرُكُم مَّعَكُمۡ أَئِن ذُكِّرۡتُمۚ بَلۡ أَنتُمۡ قَوۡمٞ مُّسۡرِفُونَ

رسولوں نے جواب دیا تمہاری فال بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ کیا یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی کوئی کسی کے لیے منحوس نہیں ہے ۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی ہی گردن میں لٹکا ہوا ہے ۔ برائی دیکھتا ہے تو اپنے نصیب کی دیکھتا ہے اور بھلائی دیکھتا ہے تو وہ بھی اس کے اپنے ہی نصیب کی ہوتی ہے ۔ ’’ ہر شخص کا پروانۂ خیر و شر ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے ‘‘ یعنی دراصل تم بھلائی سے بھاگنا چاہتے ہو اور ہدایت کے بجائے گمراہی تمہیں پسند ہے ، اس لیے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے اوہام و خرافات کے سہارے یہ بہانہ بازیاں کر رہے ہو ۔

36.20

وَجَآءَ مِنۡ أَقۡصَا ٱلۡمَدِينَةِ رَجُلٞ يَسۡعَىٰ قَالَ يَٰقَوۡمِ ٱتَّبِعُواْ ٱلۡمُرۡسَلِينَ

اتنے میں شہر کے دور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی اختیار کر لو ۔ا

Tafseer

Tafseer
آیات سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کی دعوت اور قوم کا مباحثہ مدت تک جاری رہا، حتیٰ کہ ان کی دعوت ساری بستی میں پھیل گئی اور جب انھوں نے قتل کی دھمکی دی تو یہ خبر بھی ہر طرف پھیل گئی کہ بستی کے لوگ پیغمبروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ بستی خاصی بڑی تھی، یہاں الْمَدِيْنَةِ “ سے مراد شہر ہے، اس شہر کے سب سے دور کنارے میں ایک صالح آدمی رہتا تھا، اس مرد صالح کا نام تفاسیر میں حبیب نجار لکھا ہے- یہ پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھا- اسے جب پیغمبروں کی دعوت اور قوم کے انکار کی اور پیغمبروں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی خبر پہنچی تو وہ شہر کے سب سے دور کنارے سے دوڑتا ہوا آیا کہ کہیں وہ جلدی میں پیغمبروں کو قتل ہی نہ کر دیں، اور وہ اپنی قوم کو سمجھانے لگا۔ اس مرد صالح کا یہ عمل ہمارے لیے نمونہ ہے کہ جب اسے معلوم ہو گیا کہ پیغمبر حق پر ہیں تو اس نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہتا، بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے جتنی جلدی ہو سکتا تھا دوڑتا ہوا پہنچا اور اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی اور کہا، اے میری قوم! اللہ کے ان رسولوں کی پیروی اختیار کرو۔

36.21

ٱتَّبِعُواْ مَن لَّا يَسۡـَٔلُكُمۡ أَجۡرٗا وَهُم مُّهۡتَدُونَ

پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس ایک فقرے میں اس بندۂ خدا نے نبوت کی صداقت کے سارے دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ۔ ایک نبی کی صداقت دو ہی باتوں سے جانچی جا سکتی ہے ۔ ایک ، اس کا قول و فعل ۔ دوسرے اس کا بے غرض ہونا ۔ اس شخص کے استدلال کا منشا یہ تھا کہ اول تو یہ لوگ سراسر معقول بات کہہ رہے ہیں اور ان کی اپنی سیرت بالکل بے داغ ہے ۔ دوسرے کوئی شخص اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ اس دین کی دعوت یہ اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر دے رہے ہیں ۔ اس کے بعد کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان کی بات کیوں نہ مانی جائے ۔ اس شخص کا یہ استدلال نقل کر کے قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے ایک معیار رکھ دیا کہ نبی کی نبوت کو پرکھنا ہو تو اس کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لو ۔ محمد ﷺ کا قول و عمل بتا رہا ہے کہ وہ راہ راست پر ہیں ۔ اور پھر ان کی سعی و جہد کے پیچھے کسی ذاتی غرض کا بھی نام و نشان تک نہیں ہے ۔ پھر کوئی معقول انسان ان کی بات کو رد آخر کس بنیاد پر کرے گا ۔

36.22

وَمَا لِيَ لَآ أَعۡبُدُ ٱلَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ

آخر کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ؟ا

Tafseer

Tafseer
اس فقرے کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ استدلال کا شاہکار ہے ، اور دوسرے حصے میں حکمت تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں وہ کہتا ہے کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے ۔ نامعقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔ دوسرے حصے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے ، اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے ۔ اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو ۔

36.23

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ

کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں ؟ حالانکہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی نہ وہ خدا کے ایسے چہیتے ہیں کہ میں صریح جرم کروں اور وہ محض ان کی سفارش پر مجھے معاف کر دے ۔ اور نہ ان کے اندر اتنا زور ہے کہ خدا مجھے سزا دینا چاہے اور وہ اپنے بل بوتے پر مجھے چھڑا لے جائیں ۔

36.24

إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا ۔ا

Tafseer

Tafseer
اگر میں معبودِ حقیقی کے ساتھ جھوٹے خداؤں کو شریک کرنے کی حماقت کر لوں جنہیں کسی چیز کا بھی اختیار نہیں تو ایسی صورت میں تومیں سیدھے راستے سے بالکل ہی بھٹک جاؤں گا۔ اس بستی والوں میں عقیدے اور عمل کی جو خرابیاں تھیں وہ سب اہلِ مکہ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ اس بستی والوں کی مثال کے ساتھ مقصود اہلِ مکہ کو سمجھانا ہے۔

36.25

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ

میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ، تم بھی میری بات مان لو ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس فقرے میں پھر حکمت تبلیغ کا ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ یہ کہہ کر اس شخص نے ان لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ جس رب پر میں ایمان لایا ہوں وہ محض میرا ہی رب نہیں ہے بلکہ تمہارا رب بھی ہے۔ یعنی اللہ کے یہ تینوں رسول ؑتمہیں توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں تمہاری سمجھ میں آئیں نہ آئیں میں ان کی حقیقت تک پہنچ چکا ہوں۔اور تم ان کی تصدیق کرو نہ کرو میں تو ان پر ایمان لا چکا ہوں۔ یوں اللہ کے اس بندے نے ڈنکے کی چوٹ اپنے ایمان کا اعلان کر دیا۔ یہ سنتے ہی اس کی قوم کے لوگ غصے سے پاگل ہو گئے۔ انہیں ان رسولوں پر تو زیادہ غصہ نہ آیا ‘کیونکہ وہ باہر سے آئے ہوئے ا فراد تھے ‘لیکن اپنی قوم کے ایک فرد کی طرف سے اس ’’اعلانِ بغاوت‘‘ کووہ برداشت نہ کر سکے‘ چنانچہ اللہ کے اس بندے کو اسی لمحے شہید کر دیا گیا۔

36.26

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ

( آخر کار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور ) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ داخل ہو جا جنت میں ۔ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی شہادت نصیب ہوتے ہی اس شخص کو جنت کی بشارت دے دی گئی ۔ جونہی کہ وہ موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے عالم میں پہنچا ، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوشخبری دے دی کہ فردوس بریں اس کی منتظر ہے ۔ اس فقرے کی تاویل میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ قَتَادہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل کر دیا اور وہ وہاں زندہ ہے ، رزق پا رہا ہے ۔‘‘ اور مجاہد کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات ملائکہ نے اس سے بشارت کے طور پر کہی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بعد جب تمام اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گا ۔‘‘

36.27

بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ اس مرد مومن کے کمال اخلاق کا ایک نمونہ ہے ۔ جن لوگوں نے اسے ابھی ابھی قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی غصہ اور جذبۂ انتقام اس کے دل میں نہ تھا کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں بددعا کرتا ۔ اس کے بجائے وہ اب بھی ان کی خیرخواہی کیے جا رہا تھا ۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش میری قوم میرے اس انجام نیک سے باخبر ہو جائے اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے کر راہ راست اختیار کر لے ۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں ۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ نصح قومہ حیا و میتا ، ’’ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیرخواہی کی اور مر کر بھی ۔‘‘ اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو درپردہ اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی اہل ایمان بھی اسی طرح تمہارے سچے خیرخواہ ہیں جس طرح وہ مرد مومن اپنی قوم کا خیرخواہ تھا ۔ یہ لوگ تمہاری تمام ایذا رسانیوں کے باوجود تمہارے خلاف کوئی ذاتی عناد اور کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتے ۔ ان کو دشمنی تم سے نہیں بلکہ تمہاری گمراہی سے ہے ۔ یہ تم سے صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ تم راہ راست پر آ جاؤ ۔ اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے حیات برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں ، بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے ، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے ، جذبات و احساسات رکھتی ہے ، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے ، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لیے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائے ۔

36.28

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ

اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا ۔ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس قوم کے بالکل حقیر اور بے وقعت ہونے کے اظہار کے لیے فرمایا کہ ہم نے اس کے بعد اس کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہی جب ہم کسی قوم کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں تو فرشتوں کی فوج بھیجتے ہیں، کیونکہ اس کام کے لیے اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایک فرشتے کی ایک چیخ ہی کافی ہوتی ہے۔ ہاں، اپنے مومن بندوں کی مدد کے لیے ہم ہزاروں فرشتے نازل کر دیتے ہیں جو ان کے دل کو مضبوط رکھتے ہیں، اور اس وقت کفار کو عذاب آسمان کے فرشتوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ ایمان والوں کے ہاتھوں سے دیا جاتا ہے۔

36.29

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ

وہ تو بس ایک ہی چیخ تھی جبھی وہ بجھ کر رہ گئے ۔ا

Tafseer

Tafseer
ان الفاظ میں ایک لطیف طنز ہے ۔ اپنی طاقت پر ان کا گھمنڈ اور دین حق کے خلاف ان کا جوش و خروش گویا ایک شعلۂ جوالہ تھا جس کے متعلق اپنے زعم میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان تینوں انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھسم کر ڈالے گا ۔ لیکن اس شعلے کی بساط اس سے زیادہ کچھ نہ نکلی کہ خدا کے عذاب کی ایک ہی چوٹ نے اس کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا ۔

36.30

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

افسوس بندوں کے حال پر ، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
حسرت ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں انسان کو بےحد افسوس ہوتا ہے لیکن وہ اس حالت کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس وہ دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے اور اسے اذیت ہوتی ہے۔ لوگوں کا حال یہی رہا ہے ہے جب اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے کوئی رسول بھیجا تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ہے اور پھر اس کے انجام بد سے دو چار ہوئے ہیں۔ چناچہ جو روش فرعون اور اس کی قوم نے اپنے رسولوں کے ساتھ اختیار کی آج وہی روش قریش نے اپنے رسول اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اختیار کی ہے او لازماً یہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوں گے جس سے ان کے پیشرو دو چار ہوئے۔ رسول خدا کی سب سے بڑی رحمت بن کر آتا ہے لیکن اس کا مذاق تو پھر اس سے بڑی نقمت بھی کوئی نہیں ہے۔

36.31

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے ؟ا

Tafseer

Tafseer
یہ لوگ سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں اور اس کی پاداش میں انھیں ہلاک کر دیا جاتا تھا اور ایسے مٹے کہ ان کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔ جو گرا پھر نہ اٹھا ۔اور ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا، دنیا میں آج کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے ۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن ہی کا نہیں ، ان کی نسلوں کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔

36.32

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی تمام امتیں قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد حساب اور جزاء کے لئے ہماری بارگاہ میں حاضر کی جائیں گی اور ہم انہیں ان کے اچھے برے تمام اعمال کی جزا دیں گے۔

36.33

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ

ان لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ۔ ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
پچھلے دو رکوعوں میں کفار مکہ کو انکار و تکذیب اور مخالفت حق کے اس رویہ پر ملامت کی گئی تھی جو انہوں نے نبی ﷺ کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا ۔ اب تقریر کا رخ اس بنیادی نزاع کی طرف پھرتا ہے جو ان کے اور نبی ﷺ کے درمیان کشمکش کی اصل وجہ تھی ، یعنی توحید و آخرت کا عقیدہ ، جسے حضور ﷺ پیش کر رہے تھے اور کفار ماننے سے انکار کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں پے در پے چند دلائل دے کر لوگوں کو دعوت غور و فکر دی جا رہی ہے کہ دیکھو ، جو لوگ دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دلالت کرنے والی ایک عظیم اور واضح نشانی مردہ یعنی خشک اور بنجر زمین ہے اور یہ نشانی اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کا پانی برسا کراسے زندہ کیا یعنی اس میں نَشْونُما کی قوت پیدا کی اور پھر اس زمین سے اناج نکالا جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اور ان کے مویشیوں کے لئے رزق بنایا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتاہے اسی طرح وہ مُردوں کو بھی زندہ فرمائے گا۔ کائنات کے یہ آثار جو علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ، کیا اس حقیقت کی صاف صاف نشان دہی نہیں کرتے جسے یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے ۔

36.34

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ

ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے ،ا

Tafseer

Tafseer
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے زمین میں کھجوروں اور انگو روں کے باغ بنائے اور ان باغوں کی آب پاشی کے لئے زمین میں چشمے جاری کئے تاکہ لوگ اناج کی طرح ان باغات کے پھلوں میں سے بھی کھائیں اور اگرچہ اناج اور پھل حاصل کرنے کے لئے بیج لوگوں نے بوئے اور آب پاشی انہوں نے کی، مگر بیج سے شاخ انہوں نے نہیں نکالی ، اس شاخ کو بالی اور تناور درخت انہوں نے نہیں بنایا ، بالی سے اناج اور درخت سے پھل پیدا کرنے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قدرت نہیں رکھتا ،تو کیا ان دلائل کا مُشاہدہ کرنے کے بعد بھی وہ حق کو نہیں مانیں گے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ووحدانیّت کا اقرار کر کے اس کی ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کریں گے؟

36.35

لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے ۔ پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟ا

Tafseer

Tafseer
اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے :’’ تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں ، مثلاً روٹی ، سالن ، مُربّے ، اچار ، چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں ۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرش خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے ۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے ، جب مادوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے ۔ یہ سب مادے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا ؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی : اولاً ، زمین کے مخصوص خطوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں ۔ ثانیاً ، زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں ۔ ثالثاً ، اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفات سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے ، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے ، اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں ۔ رابعاً ، سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں ۔ یہ چار بڑے بڑے اسباب ( جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں ) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا ۔ پھر یہ سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین ، پانی ، ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے ۔ مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو ۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا ، دوا ، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا ۔ اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا ۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین ، پانی ، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں ۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں ۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ، ہوا ، پانی ، سورج ، نباتات ، حیوانات اور نوع انسانی ، سب کا خالق و رب ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع ، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا ۔ توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے ، اس کے یہ شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں ؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ؟

36.36

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ

پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس ( یعنی نوع انسانی ) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک ، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک ، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو ۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے ۔ اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے ، یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے ، یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے ، یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں ، درباریوں ، منہ چڑھے مصاحبوں ، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان بٹ کر رہ گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :31 یہ توحید کے حق میں ایک اور استدلال ہے ، اور یہاں پھر پیش پا افتادہ حقائق ہی میں سے بعض کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ شب و روز جن اشیاء کا تم مشاہدہ کرتے اور یونہی غور و خوض کیے بغیر گزر جاتے ہو انہی کے اندر حقیقت کا سراغ دینے والے نشانات موجود ہیں ۔ عورت اور مرد کا جوڑ تو خود انسان کا اپنا سبب پیدائش ہے ۔ حیوانات کی نسلیں بھی نر و مادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں ۔ نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے ۔ حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں ۔ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے ۔ یہ تزویج ، جس کی بدولت یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے ، حکمت و صناعی کی ایسی باریکیاں اور پیچیدگیاں رکھتی ہے اور اس کے اندر ہر دو زوجین کے درمیان ایسی مناسبتیں پائی جاتی ہیں کہ بے لاگ عقل رکھنے والا کوئی شخص نہ تو اس چیز کو ایک اتفاقی حادثہ کہہ سکتا ہے اور نہ یہ مان سکتا ہے کہ مختلف خداؤں نے ان بے شمار ازواج کو پیدا کر کے ان کے درمیان اس حکمت کے ساتھ جوڑ لگائے ہوں گے ۔ ازواج کا ایک دوسرے کے لیے جوڑ ہونا اور ان کے ازدواج سے نئی چیزوں کا پیدا ہونا خود وحدت خالق کی صریح دلیل ہے ۔

36.37

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ

ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے ، ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
رات اور دن کی آمدورفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آ رہے ہیں ، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے ، اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کیا حکمتیں کارفرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک رب قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے ۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے ۔ دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو ۔ پھر اس رات اور دن کی آمدورفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کسی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالارادہ قائم کیا ہے ۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود ، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے ، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں ۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا ، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا ، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا ، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی ، تو ان تمام صورتوں میں اس کرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی ، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی ۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں ۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا ، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہو گیا ہے ، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے ۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پرجو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیهات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پایا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی ، کافی یا ناکافی ، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔

36.38

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے ۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ دوسری دلیل ہے، یعنی سورج کا روزانہ غروب ہونے کے بعد طلوع ہونا موت کے بعد زندگی کی دلیل ہے۔ ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخرکار ٹھہر جانا ہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھہر جائے گا ۔ اس آیت کا صحیح مفہوم انسان اسی وقت متعین کر سکتا ہے جبکہ اسے کائنات کے حقائق کا ٹھیک ٹھیک علم حاصل ہو جائے ۔ لیکن انسانی علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے اور آج جو کچھ اسے بظاہر معلوم ہے اس کے بدل جانے کا ہر وقت امکان ہے ۔ سورج کے متعلق قدیم زمانے کے لوگ عینی مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ پھر مزید تحقیق و مشاہدہ کے بعد یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے اور نظام شمسی کے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ لیکن یہ نظریہ بھی مستقل ثابت نہ ہوا ۔ بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج ، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت ( Fixed Stars ) کہا جاتا ہے ، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں ۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے ۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کلو میٹر ( تقریباً 12 میل ) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے ۔ یہ نظام الاوقات عزیز وعلیم کا مقرر کیا ہوا ہے۔ نہ اس میں ردو بدل کی گنجائش ہے اور نہ کوئی چیز اس کی خلاف ورزی کرسکتی ہے۔

36.39

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ

اور چاند ، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی مہینے کے دوران میں چاند کی گردش ہر روز بدلتی رہتی ہے ۔ یہ تیسری دلیل ہے، سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک شکل کا نہیں رہتا، ایک دن وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے ۔ پھر روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اٹھائیس منزلیں مقرر فرمائیں جن میں وہ نظر آتا ہے۔ پھر ایک دن یا دو دن غائب رہ کر دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے۔ پہلی رات وہ پتلی ٹیڑھی سی لکیر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی بھی مدھم ہوتی ہے، پھر وہ بڑھتا ہوا چودھویں رات کو پورا روشن ہو جاتا ہے، پھر گھٹتا ہوا اٹھائیسویں رات کو دوبارہ اس حالت میں پلٹ جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کھجور کی پرانی ٹیڑھی بے رونق ڈنڈی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اسی وجہ سے انسان حساب لگا کر ہمیشہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کس روز چاند کس منزل میں ہو گا ۔ اگر اس کی حرکت کسی ضابطہ کی پابند نہ ہوتی تو یہ حساب لگانا ممکن نہ ہوتا ۔ لاکھوں برس سے چاند کا گھٹنا بڑھنا اور طلوع و غروب اسی طرح جاری ہے۔ اتنے زبردست غلبے اور کامل علم والے کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔

36.40

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے ، یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے ۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آ جائے ۔ یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو ۔ فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار ( Orbit ) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء ( آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے ۔ یہ ارشاد کہ ’’ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔‘‘ چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند ، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک ، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے ۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں ۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو ۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی ۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز ، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے ، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے ۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔ جس کہکشاں ( Galaxy ) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین ( 3 ارب ) آفتاب پائے جاتے ہیں ، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں ۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے ، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں ( Spiral nebulae ) میں سے ایک ہے ، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے ۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں ، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں ۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے ۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جو اب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے ۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی ۔ تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کارفرما ہے ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم ، جو حکمت ، جو صناعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے ؟ اس نظم کے پیچھے کوئی ناظم ، اس حکمت کے پیچھے کوئی حکیم ، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع ، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے ؟

36.41

وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ

ان کے لے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا-ا

Tafseer

Tafseer
بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوح کی کشتی ۔ یعنی ایک اور نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ نسل انسانی کو اس پر سوار کرنا نسل انسانی کو سوار کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوح ؑ کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر درحقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ اور وہ پانی جو لوہے کی سوئی اور لکڑی کے ایک ڈنڈے تک کو نہیں اٹھاتا، بلکہ غرق کر دیتا ہے، اسی پانی نے ہمارے سکھانے کے مطابق لوہے یا لکڑی سے بنی ہوئی کشتی کو اٹھا لیا، جو آدمیوں سے اور ہر جانور کے ایک ایک جوڑے اور ان کی ضرورت کی اشیاء سے خوب بھری ہوئی تھی۔: یہاں ایک سوال ہے کہ کشتی میں اولاد ہی نہیں ان کے باپ بھی سوار ہوتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ ”ہم نے ان کی نسل (یا اولاد) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا“ یہ کیوں نہ فرما دیا کہ ”ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا؟“ جواب اس کا یہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے پہلے آباء کو کشتی بنانے کا طریقہ معلوم نہ تھا، نہ وہ سمندر میں سفر کر سکتے تھے۔ آدم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد، جسے باقی رکھنا منظور تھا، ساری کی ساری اس کشتی میں سوار تھی اور طوفان کے بعد وہی زمین پر باقی رہی، باقی سب غرق ہو گئی اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی ۔

36.42

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ

اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ا

Tafseer

Tafseer
س سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے انسان کو کشتی بنانے کا علم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کو دی ۔ نوح علیہ السلام کی بنائی ہوئی کشتی کے ذریعے سے طوفان سے بچ نکلنے والوں نے بحری سفر کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا جو عام کشتیوں سے باد بانی جہازوں تک پہنچا، پھر انجن والے جہاز ایجاد ہوئے، جن کا سلسلہ ایٹمی ایندھن سے چلنے والے طیارہ بردار جہازوں اور آبدوزوں تک جا پہنچا ہے۔ آگے دیکھیے کیا کچھ ایجاد ہوتا ہے۔

36.43

وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ

ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں ، کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے پانی میں بحری جہاز اٹھانے کی خوبی رکھی اور انسان کو کشتیاں اور جہاز بنانے کا سلیقہ سکھایا، پھر ہمارا ہی احسان ہے کہ ہم انھیں سلامتی کے ساتھ منزل پر پہنچا دیتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو انھیں غرق کر دیں، پھر نہ کوئی ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ وہ خود اپنے آپ کو غرق ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

36.44

إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ

بس ہماری رحمت ہی ہے جو انہیں پار لگاتی اور ایک وقت خاص تک زندگی سے متمع ہونے کا موقع دیتی ہے۔ا

Tafseer

Tafseer
پچھلی نشانیوں کا ذکر دلائل توحید کی حیثیت سے کیا گیا تھا ، اور اس نشانی کا ذکر یہ احساس دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے یہ بس ہماری رحمت اور زندگی کی مقررہ مدت تک مہلت دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم سمندر اور ہواؤں کی سرکش اور بے پناہ قوتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، جس سے مسافرصحیح سلامت دوسرے کنارے پر جا اترتے ہیں۔ اورانسان کو فطرت کی طاقتوں پر تصرف کے جو اختیارات بھی حاصل ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے ہیں ، اس کے اپنے حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں ، اس کے اپنے معلوم کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ انسان کا اپنا بل بوتا یہ نہ تھا کہ اپنے زور سے وہ ان عظیم طاقتوں کو مسخر کرتا اور نہ اس میں یہ صلاحیت تھی کہ خود اسرار فطرت کا پتہ چلا لیتا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکتا ۔ پھر جن قوتوں پر بھی اللہ نے اس کو اقتدار عطا کیا ہے ان پر اس کا قابو اسی وقت تک چلتا ہے جب تک اللہ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے مسخر رہیں ۔ ورنہ جب مرضی الٰہی کچھ اور ہوتی ہے تو وہی طاقتیں جو انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں ، اچانک اس پر پلٹ پڑتی ہیں اور آدمی اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل بے بس پاتا ہے ۔ اس حقیقت پر متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحری سفر کے معاملہ کو محض بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔ نوع انسانی پوری کی پوری طوفان میں ختم ہو جاتی اگر اللہ تعالیٰ کشتی بنانے کا طریقہ حضرت نوح کو نہ سجھا دیتا اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اس میں سوار نہ ہو جاتے ۔ پھر نوع انسانی کے لیے تمام روئے زمین پر پھیلنا اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ سے کشتی سازی کے اصولوں کا علم پا کر لوگ دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے لائق ہو گئے ۔ مگر اس ابتدا سے چل کر آج کے عظیم الشان جہازوں کی تعمیر تک انسان نے جتنی کچھ ترقی کی ہے اور جہاز رانی کے فن میں جتنا کچھ بھی کمال حاصل کیا ہے اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دریا اور سمندر ، سب اس کے قابو میں آ گئے ہیں اور ان پر اسے مکمل غلبہ حاصل ہو گیا ہے ۔ آج بھی خدا کا پانی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور جب وہ چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت اس میں غرق کر دیتا ہے ۔

36.45

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اس انجام سے جو تمہارے آگے آ رہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے ۔ شاید کہ تم پر رحم کیا جائے ( تو یہ سنی ان سنی کر جاتے ہیں ) ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی صرف اس نصیحت ہی سے نہیں، ان کے پاس ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، خواہ وہ ان کی ذات یا پوری کائنات میں پھیلی ہوئی آیات اور نشانیاں ہوں اور خواہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات ہوں۔ جو انسان کو عبرت دلاتی ہیں ، بشرطیکہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو ۔ چنانچہ وہ نہ اس کی توحید کو مانتے ہیں اور نہ اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔

36.46

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

اور جب کبھی ان کے رب کی نشانیوں سے کوئی نشانی ان کے پاس آتی ہے تو اس سے منہ ہی پھیر لیتے ہیں ،ا

Tafseer

Tafseer
یعنی صرف اس نصیحت ہی سے نہیں، ان کے پاس ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، خواہ وہ ان کی ذات یا پوری کائنات میں پھیلی ہوئی آیات اور نشانیاں ہوں اور خواہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات ہوں۔ جو انسان کو عبرت دلاتی ہیں ، بشرطیکہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو ۔ چنانچہ وہ نہ اس کی توحید کو مانتے ہیں اور نہ اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔

36.47

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اس میں کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ، ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں کیا ہم ان کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا ؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو ؟ ا

Tafseer

Tafseer
اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مردہ کر دیا ہے ۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں ، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو کچھ دیا ہے، اس میں فقراء اور مساکین کے جو حقوق ہیں وہ بھی ادا کرو، تو جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا تو وہ ان فقراء و مساکین کو خود ہی دے دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ ہی کا ارادہ انھیں دینے کا نہیں تو ہم انھیں کیوں دیں؟ تم مسلمان تو صاف گمراہی میں پڑے ہوئے ہو کہ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو جن کا پیٹ اللہ نہیں بھرنا چاہتا۔: مشرکین کی یہ بات محض کٹ حجتی ہے، کیونکہ وہ خود بھی خوب جانتے تھے کہ غریبوں کی مدد کرنا بہت اچھا کام ہے۔ رہا اللہ کے چاہنے کا بہانہ، تو یہ محض اپنی بخیلی چھپانے کے لیے ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان ہی کے لیے بنائی ہے، فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں، فقیر کی آزمائش صبر سے ہے اور غنی کی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یعنی اس کے چاہنے کا سہارا صرف اس وقت تک لیتے ہیں جب تک خود مجرم ہوں۔ جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی اللہ کی مشیّت کا سہارا نہیں لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان کا مال چھین لے، یا ان کا آدمی قتل کر دے تو کبھی یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوں گے کہ اللہ نے ایسے ہی چاہا، اس لیے ٹھیک ہو گیا۔: اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کو صرف توحید و رسالت ہی کی دعوت نہیں دیتے تھے، بلکہ نماز، زکوٰۃ اور دوسری نیکیوں کا حکم بھی دیتے تھے، جیسا کہ حدیثِ ہرقل میں ہے کہ ہرقل نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا: ”وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟“ تو ابوسفیان نے بتایا:وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں۔“ ( بخاري، التفسیر، باب: ﴿قل یا أھل الکتاب تعالوا…﴾ ‏‏‏‏: 4553 )

36.48

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اور کہتے ہیں کہ : یہ ( قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہوگا؟ ( مسلمانو ! ) بتاؤ ، اگر تم سچے ہو ۔ا

Tafseer

Tafseer
توحید کے بعد دوسرا مسئلہ جس پر نبی ﷺ اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا ۔ کفار چونکہ قیامت کو نہیں مانتے تھے، اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر تم قیامت لاتے کیوں نہیں؟ اچھا، یہ بتاؤ کہ وہ کب آئے گی؟ اس سوال کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے ، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہو جاتا اور وہ اسے مان لیتے ۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے ، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو ۔ بلکہ محض جھٹلانا اور مذاق اڑانا تھا کہ جب وہ فوراً قیامت نہ لا سکیں گے تو ہم کہیں گے قیامت وغیرہ کچھ نہیں- اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی ، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی ۔

36.49

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ

دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک چیخ ہے جو یکایک انہیں عین اس حالت میں دھر لے گا جب یہ ( اپنے دنیوی معاملات میں ) جھگڑ رہے ہوں گے ،ا

Tafseer

Tafseer
ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، بلکہ ان کے سامنے قیامت کے چند ہولناک مناظر کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے- ایک ہی چیخ سے مراد اسرافیل علیہ السلام کا پہلی دفعہ صور میں پھونکنا ہے، جس سے تمام مخلوق مر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ لوگ جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تیاری کی ضرورت نہیں، صرف ایک مرتبہ صور میں پھونک دیا جائے گا، جس کی چیخ کی آواز سے سب لوگ بے ہوش ہو کر مر جائیں گے۔ یعنی وہ قیامت آہستہ آہستہ نہیں آئے گی، جسے دیکھ کر وہ کچھ سنبھل جائیں، بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصور موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آ پہنچی ہے ۔ اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہو گا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے ، بازاروں میں خرید و فروخت کر رہے ہوں گے ، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے ۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا ۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہو جائے گا ۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی ۔ (مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ: 2954 )

36.50

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ

اور اس وقت یہ وصیت تک نہ کر سکیں گے ، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی اس چیخ کے بعد انھیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت کر سکیں، یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جا سکیں، بلکہ جو کوئی جہاں موجود ہو گا وہیں دھر لیا جائے گا۔

36.51

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ

پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے ۔ا

Tafseer

Tafseer
پہلے صور اور دوسرے صور کے درمیان کتنا زمانہ ہو گا ، اس کے متعلق کوئی معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ سینکڑوں اور ہزاروں برس طویل ہو ۔ حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اسرافیل صور پر منہ رکھے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا ۔ پہلا نفخۃ الفَزَع ، جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا ۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے ۔ پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا تو زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی اور اسے عکاظی بساط کی طرح ایسا سپاٹ کر دیا جائے گا کہ اس میں کوئی ذرا سی سلوٹ تک نہ رہے گی ۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا-

36.52

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ

گھبرا کر کہیں گے : ارے ، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا کھڑا کیا ؟ یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی اس وقت انہیں یہ احساس نہ ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب ایک مدت دراز کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں ، بلکہ وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم سوئے پڑے تھے ، اب یکایک کسی خوفناک حادثہ کی وجہ سے ہم جاگ اٹھے ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں ۔ گزری ہوئی لمبی مدت انھیں ایک لمحہ معلوم ہو گی۔ یہاں یہ ذکر نہیں کہ یہ بات کون کہے گا، عین ممکن ہے کہ کچھ دیر بعد خود انہی لوگوں کی سمجھ میں معاملہ کی اصل حقیقت آ جائے اور وہ آپ ہی اپنے دلوں میں کہیں کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ تو وہی چیز ہے جس کی خبر خدا کے رسول ہمیں دیتے تھے اور ہم اسے جھٹلایا کرتے تھے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان ان کی غلط فہمی رفع کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ خواب سے بیداری نہیں بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جواب قیامت کا پورا ماحول ان کو دے رہا ہو ، یا فرشتے ان کو حقیقت حال سے مطلع کریں ۔

36.53

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

ایک ہی زور کی آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس صور سےمراد دوسری دفعہ کی پھونک ہے، جس سے لمحہ بھر میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ تو اسی وقت وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب کے لئے حاضر کر دئیے جائیں گے-

36.54

فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

آج کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے عمل تم کرتے رہے تھے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ وہ خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین اور فساق و مجرمین سے اس وقت فرمائے گا جب وہ اس کے سامنے حاضر کیے جائیں گے ۔کہ آج کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، نہ یہ کہ ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے اور نہ یہ کہ وہ گناہ اس کے ذمے ڈال دیے جائیں جو اس نے نہیں کیے، بلکہ صرف انھی اعمال کی جزا ملے گی جو وہ کرتے رہے تھے۔

36.55

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ

آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں،ا

Tafseer

Tafseer
اس کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب ، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا ، کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہو گا ۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتائے گا کہ دیکھو ، جن صالح لوگوں کو تم دنیا میں بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے ، وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں ، اور تم جو اپنے آپ کو بڑا زیرک و فرزانہ سمجھ رہے تھے ، یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو ۔

36.56

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ

وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ،ا

Tafseer

Tafseer
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات اور لذتوں کو بیان کیا ہے جو نیک لوگ جنت میں حاصل کریں گے۔ وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ ٹھنڈی چھاؤں میں تختوں پر تکیہ لگےہوں گے، جنت کے آرام اور خوشیاں بانٹیں گے۔ اور جنت کی نعمتوں سے لذت اٹھانے میں ایسے مگن ہوں گے کہ انھیں کسی اور چیز کا خیال تک نہیں آئے گا، کیونکہ جنت کی وہ نعمتیں ایسی ہوں گی جو انسان کے وہم و گمان سے بھی بالا ہیں۔ اور وہ امن اور وقار کی حالت میں جنت کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

36.57

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ

ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں ، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے ،ا

Tafseer

Tafseer
ان کے لیے جنت میں ہر قسم کاپھل میوہ ہوگا اور انھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ تمنا کریں گے اور مانگیں گے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اس دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نہ اب تک یہ درجہ حاصل ہوسکا ہے اور نہ آئندہ کبھی حاصل ہوسکے گا کہ وہ جو کچھ چاہے اس کے لئے وہ فوراً حاضر کردیا جائے۔ لیکن اہل جنت کو جنت میں یہ درجہ حاصل ہوگا اور ہمیشہ حاصل ہوگا۔ اورچونکہ نفسِ اَمّارہ فنا کردیا جائے گا اس لئے کوئی جنتی بری چیز کی خواہش نہ کرے گا۔

36.58

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ

ب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
سب خوشیاں، سب راحتیں بجا۔ اس بے حد مہربان رب کی طرف سے جنتیوں کو سلام کہا جائے گا۔ دوسری آیات میں ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ہو گا۔ رب رحیم کے دیدار اور اس کی طرف سے سلام ایسا تحفہ اور ایسی نعمت ملے گی جس سے بڑا تحفہ اور بڑی نعمت کوئی نہیں، کیونکہ اس سے انھیں اس کی ابدی رضا حاصل ہو جائے گی، جس کے بعد وہ کبھی ان پر ناراض نہیں ہو گا۔ حضرت جابر بن عبداللہ نے کہا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس وقت اہل جنت اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے اچانک اوپر سے ایک نور چمکے گا جب وہ سراٹھا کر دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ ان کا رب کریم ان کی طرف جھانک رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو ! السلام علیکم۔ سلام قولا من رب رحیم سے یہی مراد ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اس کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ محو یت کا یہ عالم ہوگا کہ جب وہ جمال حقیقی کا دیدار کر رہے ہوں گے جنت کی کسی دوسری نعمت کا انھیں خیال تک ہی نہیں رہے گا۔ یہاں تک کہ حسن حقیقی پردہ فرمائے گا، لیکن اس کا نور اور اس کی برکت ان پر اور ان کے مکانوں پر ضیاء بار رہے گی۔

36.59

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ

( اور کافروں سے کہا جائے گا کہ : ) اے مجرمو ! آج تم ( مومنوں سے ) الگ ہوجاؤ ۔ا

Tafseer

Tafseer
ان سے کہا جائے گا کہ اے مجرمو! تم الگ الگ ہو جاؤ۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو ، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ، مجوس اور مشرکین سب الگ ہو جائیں گے- اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ ۔ اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا ۔ تمہاری سب پارٹیاں توڑ دی گئیں ۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

36.60

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،ا

Tafseer

Tafseer
آلوسی نے فرمایا، اس تاکیدی نصیحت سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ اوامر و نواہی ہیں جو اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بنی آدم کے لیے بھیجے، جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: اے آدم کی اولاد! کہیں شیطان تمھیں فتنے میں نہ ڈال دے، جس طرح اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، شیطان تمہیں جو وسوسے دلاتا ہے اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو مُزَیَّن کرتا ہے اِس میں تم اُس کی فرمانبرداری نہ کرنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔

36.61

وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

اور یہ کہ تم میری عبادت کرنا ۔ یہی سیدھا راستہ ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
شیطان کی بندگی کو چھوڑ کر میری عبادت کرنا کیونکہ میں ہی تمہارا خالق ہوں، میں نے ہی تمہاری بقا اور نشوونما کے لیے بڑی فیاضی سے سارے وسائل بہم پہنچا دئیے ہیں اور تمہاری ابدی زندگی کے متعلق بھی فیصلہ کرنے کا اختیار صرف مجھے ہے اور مجھ سے بڑھ کر تم پر کوئی شفقت اور رحمت فرمانے والا نہیں۔ اگر تم میرا حکم مانو گے، میری اطاعت کرو گے تو یہی صراط مستقیم ہے جس پر چل کر تم منزل مقصود پاسکتے ہو۔

36.62

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ

مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا ۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے ؟ا

Tafseer

Tafseer
یعنی اگر تم عقل سے محروم رکھے گئے ہوتے اور پھر اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے دشمن کی بندگی کرتے تو تمہارے لیے عذر کی کوئی گنجائش تھی ۔ لیکن تمہارے پاس تو خدا کی دی ہوئی عقل موجود تھی جس سے تم اپنی دنیا کے سارے کام چلا رہے تھے ۔ اور تمہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے متنبہ بھی کر دیا تھا ۔ اس پر بھی جب تم اپنے دشمن کے فریب میں آئے اور وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی اس حماقت کی ذمہ داری سے تم کسی طرح بری نہیں ہو سکتے ۔

36.63

هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا رہا تھا ۔ا

Tafseer

Tafseer
اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے اگر تم نے میرے عہد اور میری تنبیہ کو یاد نہیں رکھا تو اس کا انجام اب اس جہنم کی صورت میں تمہارے سامنے ہے۔ اس سے میرے رسول اور میرے نیک بندے تم کو ڈراتے رہے لیکن تم برابر ان کی باتوں کا انکار کرتے رہے۔ اب اس میں داخل ہو، یہی تمہارا ٹھکانا ہے-

36.64

اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو ۔ا

Tafseer

Tafseer
چونکہ انہوں نے جان بوجھ کر اور مستقل طور پر تمام تعلیمات، رہنمائی اور تنبیہات کو رد کیا، اب انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اب جہنم کی آگ کا مزہ چکہے، کیونکہ یہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔

36.65

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

آج ہم ان کے مونھوں پر مہر کر دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے ، گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے ، اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے ۔ بلکہ اپنے بے گناہ ہونے کی قسمیں کھائیں گے، جیسا کہ فرمایا: پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ کہیں گے، اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔“ اور قسمیں کھا کر دل میں سمجھیں گے کہ جس طرح دنیا میں جھوٹ چل جاتا تھا، اب بھی چل جائے گا، فرمایا:جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو! یقینا وہی اصل جھوٹے ہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ اچانک ہنس دیے اور فرمایا: ”جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں؟“ ہم نے کہا: ”اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں بندے کی اپنے رب سے گفتگو پر ہنسا ہوں (جو وہ قیامت کے دن کرے گا)، وہ کہے گا:”اے میرے رب! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا؟“ وہ فرمائے گا: ”کیوں نہیں؟“ کہے گا: ”میں اپنے سوا کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا (میرا بدن میرا اپنا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں)۔ تب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھا ، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں ، ان کے کان ، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے ، اور دوسری طرف سورہ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی ، ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے ، یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے ۔ اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا ، کیسے کیسے کفر بکے تھے ، کیا کیا جھوٹ بولے تھے ، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے ، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں ۔

36.66

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ

ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں موند دیں ، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں ، کہاں سے انہیں راستہ سجھائی دے گا ؟ا

Tafseer

Tafseer
پچھلی دو آیتوں کے ساتھ ان دو آیات کا تعلق یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ قیامت کے دن شرک سے انکار کے بعد اس کے اعتراف پر مجبور ہو جائیں گے، تو اس سے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کاش! دنیا میں بھی انھیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے رسولوں کی تصدیق پر مجبور کر دیا جاتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اگر ہمارا ارادہ یہ ہوتا تو ہم ایسا کر دیتے اور کفرو شرک کرنے والوں کو فوراً پکڑ لیتے، تاکہ وہ اپنے کفرو شرک سے باز آ جائیں، مگر ہم نے دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے اور ہر ایک کو عمل کی مہلت دی ہے۔ یعنی اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں سرے ہی سے مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو اسے کس طرح دیکھیں گے۔ لیکن ہم نے یہ نہیں چاہا تو ایسا نہیں ہوا، بلکہ ہم نے انھیں ان کی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود ایک وقت تک مہلت دی ہے۔

36.67

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ

ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اگر ہم چاہیں تو (جب وہ کفر و شرک کا ارتکاب کریں) تو جہاں یہ اب بیٹھے ہوئے ہیں وہاں سے اٹھنے ہی نہ پائیں کہ ہم ان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ انھیں پتھر بنا دیں۔ کسی دوسرے بدنما جانور کی شکل میں انھیں تبدیل کردیں۔ تو پھر نہ وہ آگے ہی کو بڑھ سکتے اور نہ پیچھے ہی کو پلٹ سکتے،لیکن یہ ہماری عنایت ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کو مہلت دیے ہوئے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو سنبھل جائیں اور خدا کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کا حق پہنچانیں، ان کی قدر کریں اور اپنے رب کے شکرگزار بندے بنیں۔

36.68

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ

اور ہم جس شخص کو لمبی عمر دیتے ہیں ، اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں ۔ کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی؟ا

Tafseer

Tafseer
انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے، بڑھاپا، کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ دوبارہ بچوں کی طرح کمزور اور ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ بڑے عالی دماغ کے باوجود سب کچھ بھول جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ اور فرمایا: پھر ہم تمھیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کر لیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ مفسرین نے پچھلی آیات کی مناسبت سے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک یہ کہ زندگی کے ان انقلابات کو دیکھ کر بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ انقلابات لانے والی ہستی کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا اور قیامت برپا کرنا کچھ مشکل نہیں، بلکہ آخرت اور جزائے اعمال حق ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں: ”یعنی جیسے لڑکا سست تھا، بوڑھا بھی ویسا ہی ہوا، یہ بھی نشان ہے پھر پیدا ہونے کا۔“ (موضح) دوسری تفسیر یہ کہ پھر بھی کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ جو پروردگار عمر دے کر بناوٹ میں الٹا کر دیتا ہے، وہ اس پر بھی قادر ہے کہ آنکھیں دینے کے بعد انھیں مٹا دے اور اچھی صورتیں عطا کرنے کے بعد انھیں مسخ کر دے۔

36.69

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ

ہم نے اس ( نبی ) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے ۔ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ،ا

Tafseer

Tafseer
کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی بعد موت اور جنت و دوزخ کے متعلق نبی ﷺ کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے نزدیک بے وزن ٹھہرانے کی کوشش کرتے تھے ۔ یہ ان کے اس الزام کا رد ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت و رسالت کے جس مقام پر فائز ہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ شاعری کا حُسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ان چیزوں سے بلندوبالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ایسی رکھی کہ باوجود خاندان عبدالمطلب سے ہونے کے، جس کا ہر فرد فطرتاً شاعر ہوتا تھا، پوری عمر میں کوئی شعر نہیں کہا۔ یوں جنگ وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقفّٰی عبارت ایسی نکل گئی جو شعر کا سا وزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے، اسے شعروشاعری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ قرآن شعر و شاعری نہیں بلکہ ایک عظیم یاد دہانی اور ایک واضح صحیفہ ہدایت ہے تاکہ یہ خلق کی اصلاح اور لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔ قران کے ’ ذکر ‘ ہونے کا مفہوم اس کے محل میں ہم واضح کرچکے ہیں۔ یہ ان تمام حقائق کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے اندر ودیوت فرمائے ہیں، اس پوری تاریخ ہدایت کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پھیلی ہوئی ہے اور ان تمام نتائج و عواقب کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں لازماً پیش آکے رہیں گے، اگر اللہ کے رسول کی تکذیب کی گئی۔ ’ قرآن مبین ‘۔ یعنی ایک جامع صحیفہ ہدایت جو زندگی کے ہر پہلو کے لئے اپنے اندر نہایت واضح، ٹھوس، محکم اور مدلل رہنمائی رکھتا ہے اور ہر حقیقت کو اس طرح کھول کر بیان کرتا ہے کہ کسی انصاف پسند کے لئے کسی شب ہے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ایسے مدلل، میرہن اور منضبط کتاب کو شعرو شاعری سے کیا تعلق ! دنیا کی پوری تاریخ میں کس شاعر نے اس طرح کی کتاب پیش کی ہے !

36.70

لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ

تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم جائے ۔ا

Tafseer

Tafseer
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت تمام ہوجائے ۔ قرآن نے کفر اور حیات کو بالمقابل رکھا ہے۔ گویا کفر موت کے ہم معنی ہے۔ اور جس شخص کے دل میں ایمان کی استعداد ہو ، وہ زندہ ہے اور قرآن کا مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے نازل ہوا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرائیں جو زندہ ہوں ، جن لوگوں کے اندر زندگی کی رمق ہو ، وہ مر نہ گئے ہوں تاکہ ڈرانے کا انہیں فائدہ ہو۔ رہے کفار تو وہ مردے ہوتے ہیں۔ ان کو ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ نیز ڈرانے کا فیضہ اس لیے عائد کیا گیا ہے تاکہ وہ عذاب کے مستحق ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی کو سزا نہیں دیتا جب تک اس تک اللہ کا پیغام پہنچ نہ جائے اور پھر وہ کفر نہ کر دے۔ اور پھر اگر اللہ انہیں ہلاک کر دے تو وہ بلا حجت اور بغیر سبب کے ہلاک نہ کیا جائے۔ یوں لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کے حوالے سے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جو اسے قبول کرتا ہے تو وہ زندہ ہے اور ایک وہ ہے جو قبول نہیں کرتا تو وہ مردہ ہے۔ اور اس فریق کو معلوم ہوجائے کہ اس کے خلاف فیصلہ برحق ہوا اور وہ سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس سبق کے دوسرے ٹکڑے میں الوہیت اور وحدانیت کا مضمون بیان ہوا ہے۔ الوہیت اور وحدانیت کا یہ بیان لوگوں کے مشاہدات کے فریم ورک میں ہے کہ ذرا دیکھو کہ اللہ کے ان پر کس قدر انعامات ہیں جنہیں وہ استعمال کر رہے ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔

36.71

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ

کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر بطور استعارہ استعمال ہوا ہے- اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے ۔ بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خود بنایا ہے ، ان کی تخلیق میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ؟ اللہ کی نشانیاں تو ان کے سامنے موجود ہیں اور سب کو نظر آتی ہیں۔ نہ ان سے اوجھل ہیں اور نہ دور ہیں۔ اور نہ یہ نشانیاں اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لئے کسی بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے ہیں، یہ سب ہم نے پیدا کیے ہیں۔ یہ چیزیں خود اپنے وجود سے شاہد ہیں کہ صرف خدا ہی کی قدرت و حکمت نے ان کو وجود بخشا ہے، کسی دوسرے کی مجال نہیں تھی کہ ان کو وجود میں لاسکتا یا ان کو انسان کا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا۔ انسانوں کے اندر یہ قدرت نہ تھی کہ وہ ازخود ان نعمتوں کو پیدا کرسکتے۔ سب نعمتیں تو بڑی بات ہے اگر تمام انسان جمع ہوجائیں اور وہ ایک مکھی کی تخلیق کرنا چاہیں تو وہ بھی نہ کرسکیں گے۔ نیز اللہ نے چونکہ مکھی کے اندر یہ خاصیت نہیں رکھی کہ وہ انسانوں کے تابع ہوجائے اس لیے آج تک انسان مکی کو تابع نہ کرسکے۔

36.72

وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ

ہم نے انہیں اس طرح ان کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں ، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں ،ا

Tafseer

Tafseer
ان چوپاؤں کو ہم نے ان کے تابع کر رکھا ہے، اگر ہم دوسرے جنگلی جانوروں کی طرح ان کی طبیعت میں بھی وحشت رکھ دیتے تو وہ کبھی ان کے قابو میں نہ آتے، کجا یہ کہ ان کے مالک بنتے۔ ہمارے تابع کرنے کا نتیجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے تو اونٹ جیسا قوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ چل پڑتا ہے اور اگر اس کے ساتھ سو اونٹوں کی قطار ہو تو وہ بھی ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھی چلتی رہتی ہے۔ اس ماتحتی کے علاوہ ان پر سوار ہو کر لمبے لمبے سفر آسانی سے طے کرتے ہیں۔ خود سوار ہوتے ہیں، سامان لادتے ہیں اور بوجھ ڈھونے کا کام لیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض کو ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ جن سے وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرتا ہیں-

36.73

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں ۔ پھر کیا یہ شکر گذار نہیں ہوتے ؟ا

Tafseer

Tafseer
سواری اور گوشت کے علاوہ انسان کے لیے ان جانوروں میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً ان کی کھال، چربی، سینگوں، بالوں اور آنتوں وغیرہ سے سیکڑوں چیزیں بناتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں، ان کے گوبر کی کھاد بناتے ہیں اور ان کی خریدو فروخت کے ساتھ زندگی کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ قوی ہیکل بیلوں سے انسان ہل چلواتا ہے۔ کنویں پر رہٹ چلواتا ہے۔ لمبے چوڑے اونٹوں کی ناکوں میں نکیل ڈال دیتا ہے۔ مضبوط اور توانا گھوڑوں کے منہ میں لگا ڈال دیتا ہے۔ گائیوں ‘ بھینسوں اور بکریوں سے دودھ نکلتا ہے۔ نوزائدہ بھیڑ کے بچوں کی کھالوں سے قراقلی ٹوپیاں بناتا ہے۔ بکرے اور گائے کی کھالوں سے جوتیاں ‘ مشک اور ڈول بنا لیتا ہے- جانوروں کے ذریعے سے آدمی کو پینے کی بھی بہت سی چیزیں مہیا ہوتی ہیں، مثلاً ان کا دودھ اور بے شمار وہ چیزیں جو دودھ سے بنتی ہیں۔ دہی، لسی، چھاچھ۔ سب انسان کے لئے لذیذ، خوشگوارا اور صحت بخش ہیں۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا، اس نے انھی جانوروں کی قربانیاں غیر اللہ کے آستانوں پر اور ان کے نام پر کیں۔ ان کے نام پر جانور آزاد چھوڑ- نعمت کو منعم کے سوا کسی اور کا عطیہ سمجھنا ، اس پر کسی اور کا احسان مند ہونا ، اور منعم کے سوا کسی اور سے نعمت پانے کی امید رکھنا یا نعمت طلب کرنا ، یہ سب کفران نعمت ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کفران نعمت ہے کہ آدمی منعم کی دی ہوئی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ۔ لہذا ایک مشرک اور کافر اور منافق اور فاسق انسان ، محض زبان سے شکر کے الفاظ ادا کر کے خدا کا شاکر بندہ قرار نہیں پا سکتا ۔ کفار مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ ان جانوروں کو خدا نے پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں دوسرے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ماننے کے باوجود جب وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اپنے معبودوں کے شکریے بجا لاتے اور ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے اور ان سے مزید نعمتوں کی دعائیں مانگتے اور ان کے لیے قربانیاں کرتے تھے تو خدا کے لیے ان کا زبانی شکر بالکل بے معنی ہو جاتا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو کافر نعمت اور احسان فراموش قرار دے رہا ہے ۔

36.74

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ

یہ سب کچھ ہوتے ہوئے انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی ۔ا

Tafseer

Tafseer
ان لوگوں کی بھی عجیب حالت ہے کہ رزق ہمارے دستر خوان سے کھاتے ہیں، وہ جانور جن پر یہ سواری کرتے ہیں، جن کا گوشت کھاتے ہیں، جن کا دودھ پیتے ہیں وہ سب ہم نے پیدا کئے ہیں اور انھیں ان کا تابع فرمان بنا دیا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں چھوڑ کو وہ دوسری چیزوں کو اپنا خدا بنا رہے ہیں اور شیطان نے ان کے کان میں یہ پھونک دیا ہے کہ اگر تم پر کوئی مشکل آئی تو یہ تمہاری مدد کو آئیں گے اور عذاب الٰہی کے شکنجہ سے تمہیں زبردستی چھڑا لیں گے۔ انسان نے اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی ہے صرف اس لیے کی ہے کہ وہ اس کی مدد کریں، اس کی کوئی حاجت پوری کریں، یا اس کی کوئی مشکل دور کریں۔ اگر وہ آخرت پر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس لیے کہ اسے سفارش کے بل بوتے پر عذاب سے بچا لیں، یہ سب مدد کی صورتیں ہیں۔

36.75

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ

وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ یہ لوگ الٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
وہ جھوٹے معبود بے چارے ان کی مدد کی طاقت نہیں رکھتے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ اپنی بقا، حفاظت اور دوسری ضروریات کے لیے اپنی عبادت کرنے والوں کے محتاج ہیں، ان کے لشکر نہ ہوں تو ان غریبوں کی خدائی ایک دن نہ چلے اور آخرت میں وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔ یہ ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں ۔ یہ ہر وقت ان کے مددگار اور خدمت گار فوج بنے ہوئے ہیں، ان کے آستانے تعمیر کرتے ہیں، ان کے آستانوں اور قبروں پر جھاڑو دیتے ہیں، انھیں چمکا کر رکھتے ہیں، وہاں لنگر کا انتظام کرتے ہیں، ان کی حمایت میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور ان کی مشکل کُشائی اور حاجت روائی کے جھوٹے قصّے بیان کر کے لوگوں کو ان کا گرویدہ بناتے ہیں۔ تب کہیں ان کی خدائی چلتی ہے ۔ ورنہ ان کا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔ وہ اصلی خدا نہیں ہیں کہ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے ، وہ اپنے زور پر آپ ساری کائنات کی فرماں روائی کر رہا ہے ۔ وہ جھوٹے معبود قیامت کے دن ان کفار کی عبادت کا انکار کر کے انھیں عذاب دینے دلوانے والے لشکر بن جائیں گے۔

36.76

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

تو تم ان کی بات کا غم نہ کرو بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں ۔ا

Tafseer

Tafseer
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ جب ہمارے متعلق ان مشرکین کے جہل اور عناد کا یہ حال ہے تو آپ بھی ان کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں- کیونکہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے ، وہ اپنے دلوں میں جانتے ، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی ﷺ پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں ۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بدگمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر ، کاہن ، ساحر ، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے ، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے ، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو ۔ اسی طرح ہمیں ان کی خفیہ سازشوں کا بھی علم ہے اور علانیہ دشمنی کا بھی، سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخرکار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے ۔

36.77

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ

کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہو گیا ؟ا

Tafseer

Tafseer
یہاں سے سورت کے آخر تک کفار کے اس انکار کا دلیل کے ساتھ جواب ہے جو وہ قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے سوال کی صورت میں کرتے تھے کہ قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ یعنی قیامت وغیرہ کچھ نہیں، نہ ہی کوئی مر کر زندہ ہو سکتا ہے۔ اور کیا انسان کو معلوم نہیں ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا، سوال یہ ہے کہ وہ نطفہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ انسان کا اصل قریب ہے ۔ نطفہ جس میں محض ایک ابتدائی جرثومہ حیات کے سوا کچھ نہ ہے ، یہ ایک حقیر پانی سے مرکب ہے ، یہ کوئی ٹھوس چیز ہے اور نہ اس کی کوئی قیمت ہے ۔ یہ ایک پانی ہے جس میں ہزارہا خل سے ہوتے ہیں ۔ ان ہزار ہا خلیوں میں سے صرف ایک جنین بنتا ہے ۔ اور یہ ایک جنین پھر انسان بنتا ہے۔ پھر اسے صحت، جوانی، عزت اور دولت کی نعمتیں بخشیں۔ اور اس میں شعور و تعقُّل اور بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں ہیں- کیونکہ کسی بھی شخص نے اپنا نطفے سے پیدا ہونا آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان نہ ہو، یعنی ایسے حقیر قطرے سے پیدا کیے جانے والے انسان کا حق تو یہ تھا کہ ہمیشہ اس کا سر ہمارے احسان کے بوجھ سے جھکا رہتا۔ یہ تو امید ہی نہ تھی کہ وہ صاف جھگڑے پر اتر آئے گا اور اتنا زیادہ جھگڑے گا۔

36.78

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ

اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا ۔ جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟ا

Tafseer

Tafseer
عنی ہمیں مخلوقات کی طرح عاجز سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کر سکتا ، اسی طرح ہم بھی نہیں کر سکتے۔ اور یہ بھول جاتا ہے کہ خود اسے ہم نے کس چیز سے پیدا کیا۔ کہتا ہے، آخر جب بدن گل سڑ کر ہڈیاں رہ گیا اور وہ بھی پرانی اور بوسیدہ و کھوکھلی تو انھیں دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ ابن عباس ، قتادہ اور سعید بن جبیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی ایک بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آ گیا اور اس نے نبی ﷺ کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزاء ہوا میں اڑا کر آپ سے کہا ، اے محمد ( ﷺ ) تم کہتے ہو کہ مردے پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ بتاؤ ، ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اگر یہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا تو یہ سوال ہر گز نہ کرتا، کیونکہ جو انسان کو ایک حقیر مردہ قطرے سے پیدا کر سکتا ہے، جب اس کا نام و نشان نہیں تھا، اس کے لیے اسے اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے؟

36.79

قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ

اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یعنی جس نے ان ہڈیوں کو اس وقت پیدا کر لیا جب ان کا وجود ہی نہ تھا، پھر ان میں جان ڈال دی، وہی انھیں دوبارہ زندہ کر دے گا، کیونکہ دوبارہ بنانا تو زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگرچہ اس قادر مطلق کے لیے پہلی مرتبہ بنانا اور دوبارہ بنانا یکساں آسان ہے۔ کہ وہ ہر چیز کے متعلق خوب جانتا ہے کہ اسے کس طرح پیدا کرنا ہے، پھر یہ بھی کہ اسے پہلی دفعہ کیسے پیدا کرنا ہے اور دوبارہ کیسے بنانا ہے، لہٰذا اس کے لیے بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ دوسرا معنی ہو تو مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ہر مخلوق کو جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور اس کے فنا ہونے کے بعد اس کے ذرات کہاں کہاں ہیں، سو وہ ہر ذرے کو اس کی جگہ سے جمع کر کے دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی اپنی جان پر زیادتی کرتا تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا، اس نے اپنے بیٹوں سے کہا، جب میں فوت ہو جاؤں، مجھے جلا دینا، پھر مجھے پیسنا، پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا، کیونکہ قسم ہے اللہ کی! اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیا۔ تو جب وہ فوت ہو گیا، اس کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا، فرمایا، تجھ میں اس کا جو کچھ ہے جمع کر دے، اس نے ایسے ہی کیا تو وہ اسی وقت کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تجھے اس طرح کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: ”اے میرے رب! تیرے خوف نے۔“ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

36.80

الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ

وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ دوبارہ زندگی کی دوسری دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء سے ان کی ضد نکالنے پر قادر ہے، کیونکہ دیکھو، پانی اور آگ ایک دوسرے کی ضد ہیں، آگ کا بس چلے تو پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیتی ہے اور اگر دہکتی ہوئی آگ پر ایک چلو پانی ڈال دیا جائے تو وہ بجھ جاتی ہے۔ اس طبعی تضاد کے باوجود اس نے سرسبز درختوں میں آگ اور پانی کو یکجا کردیا ہے۔ یہی گیلی لکڑی جب کاٹ کر اس سے آگ جلائی جاتی ہے تو اس سے آگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں۔ بعض علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب میں دو درخت پیدا ہوتے ہیں۔ ایک کو ” المرغ “ اور دوسرے کو ” العفار “ کہتے ہیں۔ اگر ان کی شاداب ٹہنیاں کاٹی جائیں جن سے رس بہہ رہی ہو اور انھیں ایک دوسرے سے رگڑا جائے تو آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ قدیم زمانہ میں عرب کے بدو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں ۔ جو ذات ان امور پر قادر ہے اس کے لیے تمہاری بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اسی طرح وہ زندہ سے مُردہ کو اور مُردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور نکالے گا۔

36.81

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کر سکے ؟ کیوں نہیں ، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ دوبارہ زندگی کی تیسری دلیل ہے کہ آسمان اور زمین کو دیکھو، کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں اورکو پیدا کرسکے،۔ آسمان اور زمین اور یہ وسیع کائنات تو ایک عجیب مخلوق ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے جو عجیب و غریب اور عظیم الشّان چیزیں رکھی ہیں، یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اور اس میں لاکھوں ملین اجناس و اصناف مخلوقات موجود ہیں، بعض اس قدر باریک کہ ہم ان کے حجم ہی کو نہیں پکڑ سکتے۔ نہ ہم ان کی حقیقت کو پاسکتے ہیں ۔ اور ان کے بارے میں آج تک ہم بہت کم جانتے ہیں۔ انھیں دیکھو اور ان کے مقابلے میں انسان کو دیکھو، کیا اس عظیم آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اس ضعیف البنیان انسان کو پہلے یا دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا؟ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کو انسان کے دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر کئی مقامات پر نہایت زوردار انداز میں بیان فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا: یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔ اورپھِر فرمایا: اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ ُمردوں کو زندہ کر دے؟ کیوں نہیں! یقینا وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ اور پھِرفرمایا: کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان؟ اس نے اسے بنایا۔ وہ خلّاق بھی ہے اور علیم بھی۔ جب اس میں صفت خلق اور صفت علم پورے کمال کے ساتھ جمع ہیں تو پھر کون سا مُردہ ہے جو وہ زندہ نہ کر سکے؟

36.82

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرلے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ : ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ا

Tafseer

Tafseer
یہ ایک طرح سے پہلی آیات کا نتیجہ اور خلاصہ ہے کہ اسے پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیزہو، یہ چیز زمین ہو یا آسمان ہوں ، مچھر ہو یا جانور ہو ، یا چیونٹی ، یہ سب چیزیں اللہ کے حکم کے سامنے یکساں ہوتی ہیں۔ اللہ کے سامنے مشکل و آسان کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ کے لیے قریب و بعید یکساں ہیں۔ کوئی چیز بنانے میں دقت ہی کیا ہو سکتی ہے؟ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس ” كُنْ “ کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔ صرف ارادے کا متوجہ ہونا ہوتا ہے ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز ہوگئی۔ یعنی کوئی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے خدا کو کارخانے قائم کرنے پڑتے ہیں یا سرمایہ، میٹریل، لیبر اور مشینوں کا اہتمام و انتظام کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کسی ارادے کی تکمیل میں کسی چیز کا بھی محتاج نہیں ہے۔ تمہیں تو ایک معمولی سی چیز بناتی ہو تو اس کے لیے تمہیں بیسیوں اجزا فراہم کرنے پڑتے ہیں۔ اگر ایک جز بھی نایاب ہوجائے تو تمہاری ساری مہارتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں- اللہ تعالیٰ کی قدرت وجبروت کا یہ عالم ہے کہ ادھر ارادہ ہوا اور کن کہا تو وہ چیز خواہ وہ کتنی بڑی ہو، عدم محض سے عالم وجود میں آجاتی ہے۔ اب اس سورت میں انسان کے قلب و نظر کی تاروں پر ایک آخری ضرب لگائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کیا ہے۔

36.83

فَسُبۡحَٰنَ ٱلَّذِي بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيۡءٖ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ

پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے ، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ۔ا

Tafseer

Tafseer
لفظ ملکوت ‘ کے معنی اختیار و اقتدار کے ہیں۔ اس سے خالق و مخلوق کے تعلق کی اہمیت اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کی ہر چیز مطلقا اللہ کی ملکیت ہے اور اس کائنات کی تمام مملوکات پر اللہ کا مکمل قبضہ اور کنٹرول ہے۔ بیشک اللہ ہر نقص، ہر خامی، ہر کمزوری، ہر عیب اور ہر شریک سے وہ ذات اعلیٰ ، ارفع اور پاک ہے۔ اس کا علم لامحیط ، اس کی قدرت ہمہ گیر، اس کا حکم ہر اعلیٰ وادنیٰ پر جاری ساری۔ ہر چیز اس کے زیر نگیں اور تابع فرمان۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے، جتنا چاہتا ہے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز نے اسی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ یہ نہیں کہ مٹی میں رَل مل کر تمھارا وجود ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ نہیں، بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہو گا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کر لو، بلکہ تمھیں ہرحال میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہو گا، جہاں وہ تمھارے اعمال کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ آخری ضرب ہے اور اس سورت کی نہایت عظیم اور ہولناک فضا کے لیے یہ نہایت ہی مناسب تنبیہہ ہے۔ اس سورت کا موضوع بھی نہایت ہی عظیم اور اہم ہے۔ اور اس کے اندر جو حقائق اور دلائل بھی لائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم اور ہولناک ہیں اور اس عظیم حقیقت سے مربوط و متعلق ہیں جن کی تفصیلات اور موضوع اس سورت میں دی گئی ہیں۔